-->

راوی حدیث: عکرمہ بن عمار العجلی

 

عکرمہ بن عمار العجلی

﴿راوی حدیث: عكرمة بن عمار العجلي البصری التابعي

 

امام ابن سعدؒ (المتوفی 230ھ) نے انکا ترجمہ قائم کیا ہے:

)الطبقات الكبرى - ط العلمية: جلد 8 صفحہ 116 رقم 2617(

 

امام بخاریؒ (المتوفی 256ھ) انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور کوئی جرح و تعدیل بیان نہیں کرتے:

)التاريخ الكبير للبخاري - ت المعلمي اليماني: جلد 7 صفحہ 50 رقم 226(

 

ایک دوسری جگہ امام بخاریؒ انہیں صاحب مناکیر کہتے ہیں۔

)التاریخ الصغیر: جلد 2 صفحہ 139(

 

امام ابو الحسین مسلم بن الحجاجؒ (المتوفی 261ھ):

انکا ترجمہ اپنی کتاب میں قائم کرتے ہیں:

)الكنى والأسماء - للإمام مسلم: جلد 1 صفحہ 587 رقم 2393(

 

پهر امام مسلمؒ نے اپنی صحیح مسلم میں انکی روایات سے کئی مقامات پہ حجت پکڑی ہے:

مثلا رقم:

1479، 1755، 2491 وغیرہ وغیرہ۔

 

امام ابو الحسن احمد بن صالح العجلیؒ (المتوفی 261ھ) انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں:

‌عكرمة ‌بن ‌عمار اليماني: تابعي، ثقة، عجلي، يروي عن النضر بن محمد ألف حديث

 

عکرمہ بن عمار الیمانی: تابعی ہیں، ثقہ ہیں، عجلی ہیں، انہوں نے نضر بن محمد سے ایک ہزار احادیث روایت کی ہیں۔

)الثقات للعجلي ت قلعجي: صفحہ 339 رقم 1159(

 

امام ابو داؤد السجستانیؒ (المتوفی 275ھ) صاحب سنن:

حافظ ابی عبید محمد بن علی بن عثمان الاجری کہتے ہیں:

سألت أبا داود عن عكرمة بن عمار فقال: "ثقة، لما اجتمع الناس عليه فسألوه عن الأحاديث التي كانت عنده فقال: يا قوم كنت فقيها وأنا لا أدري".

قال أبو داود: "في حديثه عن يحيى بن أبي كثير اضطراب كان أحمد بن حنبل يقدم عليه ملازم بن عمرو

 

میں نے امام ابو داؤدؒ سے عکرمہ بن عمار کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے کہا: ثقہ ہیں، جب لوگ انکے پاس جمع ہوئے اور ان سے انکے پاس موجود احادیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: اے قوم! میں فقیہ تھا اور میں نہیں جانتا تھا۔

امام ابو داؤدؒ کہتے ہیں: انکی یحیی بن ابی کثیر سے حدیث میں اضطراب تھا، احمد بن حنبل ان پہ ملازم بن عمرو کو مقدم کرتے تھے۔

)سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل: صفحہ 264 و 265 رقم 361(

 

امام ابو عيسی الترمذیؒ (المتوفی 279ھ) انکی روایت کو حسن صحیح قرار دیتے ہیں:

)سنن الترمذي - ت بشار: جلد 4 صفحہ 166 رقم 2343(

 

امام ابن خزيمهؒ (المتوفی 311ھ) نے بھی ان سے کئی روایات سے اپنی صحیح میں احتجاج کیا ہے۔

 

امام ابو عوانہ یعقوب بن اسحاقؒ (المتوفی 316ھ) نے امام مسلم کی صحیح پہ مستخرج لکھتے ہوئے ان سے متعدد روایات لی ہے، انہوں نے بھی انکو صحیح مسلم کی شرائط پہ صحیح کا راوی مانا ہے:

مثلا: رقم 71، 638، 690 وغیرہ وغیرہ۔

 

امام ابن ابی حاتم الرازیؒ (المتوفی 328ھ) لکھتے ہیں:

قال أبو محمد روى عن سالم ابن عبد الله والقاسم بن محمد وطيسلة بن على الهذلى، نا عبد الرحمن حدثني أبي ناعلى الطنافسي نا وكيع عن عكرمة عمار وكان ثقة

 

امام وکیع بن الجراح کہتے ہیں کہ: یہ ثقہ ہیں۔

 

نا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن محمد بن حنبل نا علي بن الْمَدِينِيِّ قَالَ سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سعيد عن أحاديث ‌عكرمة ‌بن ‌عمار عن يحيى بن أبي كثير فضعفها وقال ليس بصحاح

 

امام علی بن مدینیؒ کہتے ہیں کہ: میں نے امام یحیی بن سعیدؒ سے عکرمہ بن عمار کی یحیی بن ابی کثیر سے احادیث کے متعلق پوچھا، انہوں نے ضعیف قرار دیا اور کہا وہ صحیح نہیں ہیں۔

 

نا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال ابى ‌عكرمة ‌بن ‌عمار مضطرب الحديث عن غير اياس بن سلمة وكان حديثه عن اياس بن سلمة صالح وحديثه عن يحيى بن أبي كثير مضطرب

 

امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ: عکرمہ بن عمار مضطرب الحدیث ہیں ایاس بن سلمہ کے علاوہ اور ایاس بن سلمہ سے انکی احادیث صالح ہیں، اور یحیی بن ابی کثیر سے انکی حدیث مضطرب ہے۔

 

نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلى قال نا عثمان بن سعيد قال سألت يحيى بن معين قلت ايوب بن عتبة احب اليك أو عكرمة بن عمار؟ قال عكرمة احب إلى ايوب ضعيف

 

 عثمان بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیی بن معینؒ سے سوال کیا، میں نے کہا: آپکو ایوب بن عتبہ زیادہ محبوب ہیں یا عکرمہ بن عمار؟ انہوں نے کہا: عکرمہ مجھے ایوب ضعیف سے زیادہ محبوب ہے۔

 

نا عبد الرحمن أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول عكرمة بن عمار صدوق ليس به بأس

 

امام یحیی بن معین کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار صدوق ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول قال يحيى بن معين كان عكرمة بن عمار اميا وكان حافظا

 

امام یحیی بن معینؒ کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار انپڑھ تھے اور وہ حافظ تھے۔

 

سألت ابى عن عكرمة بن عمار فقال كان صدوقا وربما وهم في حديثه وربما دلس وفى حديثه عن يحيى بن أبي كثير بعض الاغاليط

 

امام ابن ابی حاتم الرازیؒ نے عکرمہ بن عمار کے متعلق اپنے والد (امام ابو حاتم الرازیؒ) سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: وہ صدوق تھے، اور حدیث میں کبھی کبھار وہم کرجاتے تھے، اور کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے، اور یحیی بن ابی کثیر سے انکی احادیث میں بعض غلطیاں تھی۔

)الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: جلد 7 صفحہ 10 و 11 رقم 41(

 

امام ابن حبانؒ (المتوفی 354ھ) انہیں اپنی کتاب الثقات میں ثقہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

‌عكرمة ‌بن ‌عمار ‌العجلي من أهل اليمامة كنيته أبو عمار يروي عن الهرماس بن زياد وله صحبة روى عنه الثوري وأبو الوليد الطيالسي مات سنة تسع وخمسين ومائة أدخلناه في هذه الطبقة لأن له لقيا وسماعا من الصحابي ومتى صح ذلك دخل في جملة التابعين سواء قلت روايته أو كثرت وأما روايته عن يحيى بن أبي كثير ففيه اضطراب كان يحدث من غير كتابة

 

عکرمہ بن عمار العجلی،اہل یمامہ میں سے ہیں، انکی کنیت ابو عمار ہے۔ یہ الہرماس بن زیاد سے روایت کرتے ہیں اور انکے ساتھی تھے، ان سے ثوری اور ابو الولید الطیالسی روایت کرتے ہیں۔ یہ سن ایک سو انسٹھ میں فوت ہوئے۔ ہم نے انہیں اس طبقے میں اس لیے شامل کیا کہ وہ ایک صحابی سے بھی ملے تھے اور ان سے سماع کیا تھا۔ اور جب يه صحيح ہے تو یہ تابعین کے گروہ میں داخل ہوتے ہیں، خواہ انکی روایتیں کم ہوں یا زیادہ۔ اور جہاں تک یحیی بن ابی کثیر سے انکی روایت کا تعلق ہے تو اس میں اضطراب ہے، یہ کتاب کے بغیر حدیث روایت کرتے تھے۔

)الثقات لابن حبان: جلد 5 صفحہ 233(

 

امام ابن عدی الجرجانیؒ (المتوفی 365ھ) لکھتے ہیں:

حدثنا ابن حماد، قال: حدثني عبد الله بن أحمد، عن أبيه قال أحاديث عكرمة، عن يحيى بن أبي كثير ضعاف ليس بصحاح قلت له من عكرمة أو من يحيى؟ قال: لا الأمر عكرمة

 

امام عبد اللہ بن احمدؒ کہتے ہیں کہ انکے والد امام احمد بن حنبلؒ نے کہا: عکرمہ کی یحیی بن ابی کثیر کی احادیث میں ضعف ہے صحیح نہیں ہیں۔ میں نے کہا: یہ عکرمہ میں ہے یا یحیی میں۔ انہوں نے کہا: نہیں، یہ عکرمہ میں ہے۔

 

حدثنا ابن حماد، قال: قال البخاري ‌عكرمة ‌بن ‌عمار أبو عمار اليمامي ‌العجلي مضطرب في حديث يحيى بن أبي كثير ولم يكن عنده كتاب وقد روى عنه سفيان الثوري

 

امام بخاریؒ کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار ابو عمار الیمامی العجلی مضطرب ہیں یحیی بن ابی کثیر کی حدیث میں، انکے پاس کتاب نہیں تھی، اور ان سے سفیان الثوری روایت کرتے ہیں۔

 

حدثنا ابن العراد، قال: حدثنا يعقوب بن شيبة، قال: حدثني غير واحد من أصحابنا منهم عبد الله بن شعيب سمعوا يحيى بن معين يقول ‌عكرمة ‌بن ‌عمار ثقة ثبت

 

یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے ایک سے زائد اصحاب نے بتایا جن میں عبد اللہ بن شعیب شامل ہیں کہ انہوں نے امام یحیی بن معین کو کہتے ہوئے سنا: عکرمہ بن عمار ثقہ ثبت ہیں۔

 

حدثنا ابن العراد، قال: حدثنا يعقوب، حدثنا الحسن بن علي الحلواني أو، حدثني عنه بعض أصحابنا، قال: سمعت عبد الصمد يقول قدم علينا عكرمة بن عمار فاجتمعنا عنده فقال أراني عالما أو فقيها وما أدري

 

عبد الصمد کہتے ہیں کہ: عکرمہ بن عمار انکے پاس آئے تو ہم انکے پاس جمع ہوگئے، تو انہوں نے کہا: تم نے مجھے کوئی عالم یا فقہی دیکھا ہے اور میں نہیں جانتا۔

 

حدثنا أحمد بن علي، قال: حدثنا عبد الله بن أحمد الدورقي قال يحيى عكرمة بن عمار أمي ثقة

 

یحیی بن معین کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار ان پڑھ اور ثقہ ہیں۔

 

حدثنا علان، قال: حدثنا ابن أبي مريم، قال: سمعت يحيى يقول: عكرمة بن عمار ثقة يكتبون حديثه

 

امام یحیی بن معین کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار ثقہ ہیں، وہ انکی احادیث لکھتے ہیں۔

 

حدثنا محمد بن علي، قال: أخبرنا عثمان بن سعيد، قال: قلت ليحيى بن معين أيوب بن عتبة أحب إليك أو عكرمة بن عمار قال عكرمة أحب إلي أيوب ضعيف

 

امام عثمان بن سعید الدارمیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیی بن معین سے کہا: آُکو ایوب بن عتبہ زیادہ محبوب ہے یا عکرمہ بن عمار۔ انہوں نے کہا: عکرمہ مجھے ایوب ضعیف سے زیادہ محبوب ہے۔

 

اسکے بعد امام ابن عدیؒ چند صفحات پہ روایات نقل کرکے ان پہ بحث کرتے ہیں اور آخر میں ان پہ اپنا حکم بیان کرتے ہیں کہ:

 

ولعكرمة بن عمار غير ما ذكرت من الحديث، وهو مستقيم الحديث إذا روى عنه ثقة

 

اور عکرمہ بن عمار ان ذکر کی گئی احادیث کے علاوہ مستقیم الحدیث ہیں اگر ان سے ثقہ روایت کرے۔

)الكامل في ضعفاء الرجال: جلد 6 صفحہ 478 رقم 1412(

 

امام محمد بن عبد اللہ الحاکمؒ (المتوفی 405ھ) اپنی کتاب المستدرک میں ان سے روایت نقل کرکے اسے امام مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور امام ذھبی بھی امام حاکمؒ کی موافقت کرتے ہوئے اسے امام مسلم کی شرط پہ کہتے ہیں: رقم 2656۔

 

امام ابو بکر ابن منجویہؒ (المتوفی 428ھ) انہیں صحیح مسلم کا راوی لکھتے ہیں۔

)رجال صحيح مسلم: جلد 2 صفحہ 110 رقم 1274(

 

امام ابو الفرج ابن الجوزیؒ (المتوفی 597ھ) لکھتے ہیں:

عكرمة ‌بن ‌عمار أبو عمار اليمامي ‌العجلي روى عن يحيى بن أبي كثير قال يحيى بن سعيد أحاديث ضعاف ليس بصحاح قال أحمد أحاديثه ضعاف وقال يحيى بن معين هو ثقة ثبت

 

عکرمہ بن عمار ابو عمار الیمامی العجلی۔ یہ یحیی بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں۔ امام یحیی بن سعید نے کہا: انکی احادیث میں ضعف ہے، صحیح نہیں ہیں۔ امام احمد نے کہا: انکی احادیث میں ضعف ہے۔ اور امام یحیی بن معین نے کہا: یہ ثقہ ثبت ہیں۔

)الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي: جلد 2 صفحہ 185 رقم 2337(

 

واضع رہے کہ امام یحیی بن سعید اور امام احمد کا یہ کلام انکی صرف یحیی بن کثیر سے روایات کے متعلق ہے۔

 

امام خطیب بغدادیؒ (المتوفی 463ھ) لکھتے ہیں:

أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا موسى بن إبراهيم بن النضر العطار، حدثنا محمد ابن عثمان بن أبي شيبة قال: سمعت عليا- هو ابن المديني وسئل عن عكرمة بن عمار- فقال: كان عند أصحابنا ثقة ثبتا

 

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں میں نے علی بن مدینی سے سماع کیا اور ان سے عکرمہ بن عمار کے متعلق سوال کیا: تو انہوں نے کہا: یہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ثقہ ثبت ہیں۔

 

أخبرنا البرقاني، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خميرويه الهروي، أخبرنا الحسن بن إدريس قال: قال ابن عمار: عكرمة بن عمار ثقة عندهم، وروى عنه ابن مهدي، ما سمعت فيه إلا خيرا.

وقال ابن عمار في موضع آخر: عكرمة بن عمار شيخ اليمامة، وهو أثبت من الملازم بن عمرو

 

(امام محمد بن عبد اللہ) ابن عمار (الموصلی) کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار انکے نزدیک ثقہ ہیں، اور ان سے ابن مہدی روایت کرتے ہیں، میں نے انکے متعلق خیر کے علاوہ کچھ نہیں سنا۔

اور ابن عمار نے دوسری جگہ کہا کہ: عکرمہ بن عمار یمامہ کے شیخ ہیں اور وہ ملازم بن عمرو سے زیادہ اثبت ہیں۔

 

أخبرنا علي بن طلحة المقرئ، أخبرنا محمد بن إبراهيم بن يزيد الغازي، أخبرنا محمد بن محمد بن داود الكرجي، حدثنا عبد الرحمن بن يوسف بن خراش قال:

عكرمة بن عمار كان صدوقا، في حديثه نكرة. روى عنه شعبة، وسفيان، ويحيى، وعبد الرحمن

 

عبد الرحمن بن یوسف بن خراش کہتے ہیں:

عکرمہ بن عمار صدوق ہیں، انکی حدیث میں نکارت ہے، ان سے شعبہ، سفیان، یحیی اور عبد الرحمن روایت کرتے ہیں۔

 

أخبرنا البرقاني قال: سمعت أبا الحسن الدارقطني يقول: عكرمة بن عمار يمامي ثقة

 

امام برقانیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو الحسن الدارقطنیؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ: عکرمہ بن عمار یمامی ثقہ ہیں۔

)تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية: جلد 12 صفحہ 252 رقم 6705(

 

امام عبد الغنی المقدسیؒ (المتوفی 600ھ) لکھتے ہیں:

قال أحمد بن حنبل: مضطرب الحديث عن غير إياس، وكان حديثه عنه صالح، وفي حديثه عن يحيى بن أبي كثير بعض الأغاليط.

وقال ابن المديني: سألت يحيى بن سعيد عن أحاديثه عن يحيى بن أبي كثير، فضعفها، وقال: ليست بصحاح.

وقال وكيع: كان ثقة.

وقال أحمد بن عبد الله: ثقة، يروى عنه النضر بن محمد ألف حديث.

وقال ابن عدي: وهو مستقيم الحديث إذا روى عنه ثقة.

وقال عاصم بن علي: كان عكرمة بن عمار مستجاب الدعوة.

روى له الجماعة إلا البخاري

 

امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں: ایاس کے علاوہ مضطرب الحدیث ہیں، اور ان سے یہ صالح ہیں، اور یحیی بن ابی کثیر سے انکی احادیث میں بعض غلطیاں ہیں۔

اور امام (علی) ابن المدینیؒ کہتے ہیں: میں نے امام یحیی بن سعید سے انکی یحیی بن ابی کثیر سے احادیث کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے ضعیف قرار دیا اور کہا: وہ صحیح نہیں ہیں۔

اور امام وکیع نے کہا: یہ ثقہ ہیں،

اور امام احمد بن عبد اللہ (العجلی) کہتے ہیں: یہ ثقہ ہیں، ان سے نضر بن محمد نے ایک ہزار احادیث روایت کی ہیں۔

اور امام ابن عدی نے کہا: اگر ان سے ثقہ روایت کرے تو یہ مستقیم الحدیث ہیں۔

اور عاصم بن علی نے کہا: عکرمہ بن عمار مستجاب الدعوہ تھے (انکی دعائیں ہمیشہ بہت جلدی قبول ہوجایا کرتی تھی)۔

ان سے ایک جماعت نے روایت لی ہے سوائے امام بخاریؒ کے۔

)الكمال في أسماء الرجال: جلد 7 صفحہ 339 رقم 4546(

 

امام ابو ذرعه الدمشقیؒ (المتوفی 281ھ) لکھتے ہیں:

وسمعت أحمد بن حنبل يضعف رواية أيوب بن عتبة، وعكرمة بن عمار عن يحيى بن أبي كثير، وقال: عكرمة أوثق الرجلين

 

اور میں نے امام احمد بن حنبل کو ایو بن عتبہ اور عکرمہ بن عمار کی یحیی بن ابی کثیر سے روایت کی تضعیف کرتے ہوئے سنا، اور انہوں نے کہا: عکرمہ تمام لوگوں میں سب سے اوثق ہیں۔

)تاريخ أبي زرعة الدمشقي: صفحہ 453(

 

امام جمال الدین یوسف المزیؒ (المتوفی 742ھ) انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

وقال الفضل بن زياد: سألت أبا عبد الله، قلت: هل كان باليمامة أحد يقدم على عكرمة اليمامي مثل أيوب بن عتبة، وملازم بن عمرو، وهؤلاء؟ فقال: عكرمة فوق هؤلاء ونحو هذا، ثم قال: روى عنه شعبة أحاديث

 

فضل بن زیاد کہتے ہیں: میں نے ابو عبداللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ کیا آپ کے نزدیک یمامہ میں کوئی شخص عکرمہ الیمامی سے مقدم ہے؟ ایوب بن عتبہ ، ملازم بن عمرو ، وغیرہ کی مثل؟ تو انہوں نے جواب دیا: عکرمہ ان سے اور انکی مثل سب سے زیادہ مقدم ہیں پھر انہوں نے کہا شعبہ ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔

 

وقال النسائي: ليس به بأس إلا في حديثه عن يحيى بن أبي كثير

 

امام نسائیؒ کہتے ہیں: یحیی بن ابی کثیر سے انکی حدیث کے سوا ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

وقال زكريا بن يحيى الساجي: صدوق، روى عنه شعبة والثوري ويحيى القطان، ووثقه يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل إلا أن يحيى القطان ضعفه في أحاديث عن يحيى بن أبي كثير، وقدم ملازما على عكرمة بن عمار

 

اور زکریا بن یحیی الساجی کہتے ہیں: صدوق ہیں، ان سے شعبہ، ثوری اور یحیی القطان روایت کرتے ہیں۔ انہیں ابن معین اور احمد بن حنبل نے ثقہ قرار دیا ہے، سوائے یحیی القطان کے، انہوں نے یحیی بن ابی کثیر کی احادیث میں ضعیف کہا ہے، اور ملازم کو عکرمہ بن عمار پہ مقدم کیا ہے۔

 

وقال صالح بن محمد الأسدي: كان ينفرد بأحاديث طوال، ولم يشركه فيها أحد.

قال وقدم البصرة، فاجتمع إليه الناس، فقال: ألا أراني فقيها وأنا لا أشعر!

وقال أيضا: عكرمة بن عمار: صدوق إلا أن في حديثه شيئا، روى عنه الناس

 

اور صالح بن محمد الاسدی: یہ طویل احادیث میں منفرد ہوجاتے ہیں، اور ان میں انکے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔

کہا: یہ بصرہ آئے تو انکے گرد لوگوں کا مجمع ہوگیا، تو انہوں نے کہا: تم مجھے فقیہ سمجھتے ہو اور میں ایسا محسوس نہیں کرتا۔

اور اسی طرح کہا کہ: عکرمہ بن عمار صدوق ہیں سوائے اسکے کہ انکی احادیث میں کچھ ہے، لوگوں نے ان سے روایت کیا ہے۔

 

وقال إسحاق بن أحمد بن خلف البخاري الحافظ: عكرمة بن عمار ثقة، روى عنه سفيان الثوري وذكره بالفضل، وكان كثير الغلط ينفرد عن إياس بأشياء لا يشاركه فيها أحد

 

اور حافظ اسحاق بن احمد بن خلف البخاری کہتے ہیں: عکرمہ بن عمار ثقہ ہیں، ان سے سفیان ثوری روایت کرتے ہیں اور انکا ذکر احسان کے ساتھ کرتے ہیں، اور یہ بہت غلطیاں کرنے والے تھے ایاس سے ان چیزوں میں منفرد ہوئے ہیں ان میں انکے ساتھ کسی نے اشتراک نہیں کیا۔

 

استشهد به البخاري في "الصحيح"، وروى له في كتاب"رفع اليدين في الصلاة"، وغيره.

وروى له الباقون

 

ان سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں استشہاد کیا ہے (یعنی متابعت میں روایات لی)، اور ان سے اپنی کتاب “رفع الیدین فی الصلاۃ” وغیرہ میں روایات لی ہیں۔ اور باقی بھی ان سے روایات لیتے ہیں۔

)تهذيب الكمال في أسماء الرجال: جلد 20 صفحہ 256 رقم 4008(

 

امام شمس الدین الذھبیؒ (المتوفی 748ھ):

امام ذھبیؒ انکا ذکر اپنی اس کتاب میں کرتے ہیں جن میں انہوں نے ان رواۃ کو درج کیا ہے جن پہ آئمہ کا کلام ہے مگر وہ ثقہ يا صالح الحديث ہیں۔

"م متابعة عه" عكرمة بن عمار اليمامي ضعفه أحمد، ووثقه ابن معين، وقال يحيى بن سعيد القطان: أحاديثه عن يحيى بن أبي كثير ضعاف، واستشهد به مسلم كثيراً

 

عکرمہ بن عمار الیامی، امام احمد نے ضعیف کہا، ابن معین نے ثقہ کہا اور یحیی بن سعید القطان نے کہا: انکی یحیی بن ابی کثیر سے احادیث ضعیف ہیں، اور ان سے امام مسلم نے کثرت سے استشہاد کیا ہے۔

)من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي: صفحہ 382 رقم 250(

 

اسی طرح امام ذھبیؒ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

الحافظ، الإمام، أبو عمار ‌العجلي، البصري، ثم اليمامي، من حملة الحجة، وأوعية الصدق

حافظ، امام ابو عمار العجلی، البصری پھر یمامی، حجت كے حامل لوگوں میں سے اور سچائی کے سرچشمے۔

 

قلت: استشهد به البخاري، ولم يحتج به، واحتج به مسلم يسيرا، وأكثر له من الشواهد.

قال الحاكم أبو عبد الله: أكثر مسلم الاستشهاد بعكرمة بن عمار

 

میں کہتا ہوں کہ: ان سے امام بخاریؒ نے استشہاد کیا ہے اور احتجاج نہیں کیا۔ اور امام مسلم نے اس سے کچھ احتجاج کیا ہے اور اکثر اس سے شواہد میں ہے۔

ابو عبد اللہ الحاکم کہتے ہیں: امام مسلم نے كثرت سے عکرمہ بن عمار سے استشہاد کیا ہے۔

)سير أعلام النبلاء - ط الرسالة: جلد 7 صفحه 134 رقم 49(

 

اسی طرح امام ذھبیؒ انکا ترجمہ ایک کتاب میں قائم کرتے ہیں اور نقل کرتے ہیں کہ:

وقال صالح جزرة: صدوق، في حديثه شيء

 

اور امام صالح جزرة کہتے ہیں: یہ صدوق ہیں، ان کی حدیث میں کچھ ہے۔

)تاريخ الإسلام - ت بشار: جلد 4 صفحہ 152 رقم 211(

 

اسی طرح امام شمس الدین الذھبیؒ ان پہ اپنا حکم لگاتے ہیں کہ:

عكرمة ‌بن ‌عمار الحنفي اليمامي عن الهرماس وله صحبة وعن طاوس وجماعة وعنه شعبة والقطان وعبد الرزاق ثقة إلا في يحيى بن أبي كثير فمضطرب وكان مجاب الدعوة مات 159 م 4

 

عکرمہ بن عمار الحنفی الیمامی روایت کرتے ہیں الہرماس سے اور انکے ساتھی تھے، اور طاوس اور ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے امام شعبہ اور یحیی القطان اور امام عبد الرزاق روایت کرتے ہیں، یہ ثقہ ہیں سوائے یحیی بن ابی کثیر میں یہ مضطرب ہیں، اور آپ مجاب الدعوۃ تھے (یعنی آپکی دعائیں بہت جلدی قبول ہوجایا کرتی تھی)، انکی وفات سن 159ھ میں ہوئی، ان سے امام مسلم اور سنن اربعہ کے آئمہ نے روایات لی ہیں۔

)الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة: جلد 2 صفحہ 33 رقم 3866(

 

دوسری جگہ امام ذھبیؒ انہیں صدوق مشہور قرار دیتے ہیں۔

)المغني في الضعفاء: جلد 2 صفحہ 438 رقم 4168(

 

امام علاء الدین مغلطاي الحنفیؒ (المتوفی 762ھ) انکا ترجمہ قائم کرتے ہیں:

ولما ذكره ابن شاهين في كتاب "الثقات" قال: قال أحمد بن صالح، يعني: المصري: أنا أقول: إنه ثقة، وأحتج به وبقوله لا أشك فيه

 

اور انہیں امام ابن شاہینؒ نے اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا، کہا: احمد بن صالح المصری کہتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ یہ ثقہ ہیں، میں اس سے اور اس کے قول سے احتجاج کرتا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

)إكمال تهذيب الكمال - ط العلمية: جلد 5 صفحہ 305 رقم 3898(

 

امام شہاب الدین البوصیریؒ (المتوفی 840ھ) ایک روایت کی تحکیم و تضعیف میں انکو ثقہ قرار دیتے ہیں:

)مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: جلد 4 صفحہ 205 رقم 4441(

 

امام برہان الدین سبط ابن المعجمیؒ (المتوفی 841ھ) انکو امام اور ثقہ قرار دیتے ہیں:

)الكشف الحثيث: صفحہ 192 رقم 534(

 

امام ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) لکھتے ہیں:

‌عكرمة ‌ابن ‌عمار ‌العجلي أبو عمار اليمامي أصله من البصرة صدوق يغلط وفي روايته عن يحيى ابن أبي كثير اضطراب ولم يكن له كتاب من الخامسة مات قبيل الستين خت م 4

 

عکرمہ بن عمار العجلی ابو عمار الیمامی، اصل میں بصرہ سے تھے، یہ صدوق یغلط تھے، اور یحیی بن ابی کثیر سے روایات میں اضطراب تھا، اور انکے پاس انکی کتاب نہ تھی، یہ پانچویں طبقے میں سے ہیں۔ آپ ساٹھ سال سے پہلے فوت ہوگئے۔ امام بخاری نے ان سے معلقا روایت کرتے ہیں، امام مسلم اپنی صحیح میں ان سے روایت کرتے ہیں، اور سنن اربعہ کے آئمہ نے بھی ان سے روایت لی ہے۔

)تقريب التهذيب: صفحہ 396 رقم 4672(

 

دوسری جگہ امام ابن حجر عسقلانیؒ انہیں آئمہ میں سے ایک قرار دیتے ہیں:

)لسان الميزان: جلد 7 صفحہ 308 رقم 4071(

 

امام ابن حجر عسقلانیؒ کے تقریب التھذیب کے کلام کا رد کرتے ہوئے شیخ بشار عواد معروف لکھتے ہیں:

بل: ثقة، إلا في روايته عن يحيى بن أبي كثير فهي ضعيفة لاضطرابه فيها، فقد أطلق توثيقه: أيوب السختياني، والعجلي، وابن المديني، وأحمد بن حنبل، وابن معين، وأحمد بن صالح المصري، وأبو داود، وأبو زرعة الدمشقي، وابن عمار، وعلي بن محمد الطنافسي، وإسحاق بن أحمد بن خلف البخاري الحافظ، والدارقطني، وغيرهم، وأجمعوا على اضطراب روايته عن يحيى بن أبي كثير، وإنما تكلم فيه يحيى بن سعيد القطان لأجل ذلك

 

بلکہ یہ ثقہ ہیں، سوائے یحیی بن ابی کثیر کی روایت کے، اس میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہیں۔ انکی توثیق کرنے والے ہیں: ایوب السختیانی، العجلی، ابن المدینی، احمد بن حنبل، ابن معین، احمد بن صالح المصری، ابو داؤد، ابو ذرعہ الدمشقی، ابن عمار، علی بن الطنافسی، اسحاق بن احمد بن خلف البخاری الحافظ، دارقطنی، وغیرہ۔ اور انکی یحیی بن ابی کثیر سے روایت میں اضطراب پہ سب متفق ہیں، اور اسی لیے یحیی بن سعید القطان نے ان میں کلام کیا ہے۔

)تحرير تقريب التهذيب: جلد 3 صفحہ 32 رقم 4672(

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تعدیل کرنے والے آئمہ کی فہرست:

1۔ امام مسلمؒ

2۔ امام ابو داؤدؒ

3۔ امام عجلیؒ

4۔ امام ابن خزیمہؒ

5۔ امام ابن حبانؒ

6۔ امام ابو عوانہؒ

7۔ امام وکیع بن الجراحؒ

8۔ امام یحیی بن معینؒ

9۔ امام ابو حاتم الرازیؒ

10۔ امام حاکمؒ

11۔ امام ابن عدیؒ

12۔ امام ابن عمار الموصلیؒ

13۔ عبد اللہ بن یوسف بن خراشؒ

14۔ امام دارقطنیؒ

15۔ امام احمد بن حنبلؒ

16۔ امام نسائیؒ

17۔ امام زکریا بن یحیی الساجیؒ

18۔ صالح بن محمد الاسدیؒ

19۔ حافظ اسحاق بن محمد بن خلف بخاریؒ

20۔ امام صالح جزرۃؒ

21۔ امام شمس الدین الذھبیؒ

22۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ

23۔ امام ابن شاہینؒ

24۔ امام شہاب الدین البوصیریؒ

25۔ امام برہان الدین سبط ابن المعجمیؒ

26۔ امام احمد بن صالح المصریؒ

27۔ امام ترمذیؒ

28۔ امام سفیان الثوریؒ

29۔ امام شعبہ بن الحجاجؒ

30۔ امام علی بن مدینیؒ

 

جرح کرنے والے آئمہ کی فہرست:

1۔ امام بخاریؒ

2۔ امام یحیی بن سعید القطانؒ

3۔ امام احمد بن حنبلؒ

وغیرہ۔ ان آئمہ کا جو بھی کلام ہے وہ عکرمہ بن عمار کی یحیی بن ابی کثیر سے روایات پہ کلام ہے۔ جیسا کہ انکے مکمل اور تمام کلام کو جمع کرنے سے بلکل واضع ہے۔ لہزا انکی جرح عکرمہ بن عمار کی یحیی بن ابی کثیر کے علاوہ دیگر لوگوں سے مرویات پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

4۔ امام ابن الجوزیؒ

امام ابن الجوزیؒ نے صرف انکی یحیی بن ابی کثیر سے مرویات پہ جروحات کو لیکر انہیں ضعفاء میں نقل کردیا، جوکہ غلط ہے، انہوں نے انکی تعدیل کے اقوال بلکل نظر انداز کردیے اور یہ بھی نظر انداز کردیا کہ جنکی جروحات وہ نقل کررہے ہیں وہ جروحات مطلقا ہیں یاں مخصوص راوی سے روایت پہ ہے۔ لہزا انکا ضعفاء میں نقل کرنا مردود ہے اور یہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے تسامحات میں سے ایک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

لہزا یہ کل کلام ہے اس راوی پہ آئمہ کرام کا۔ معلوم ہوا کہ ان پہ جرح صرف یحیی بن ابی کثیر سے روایت کو لیکر ہے کہ اس میں انکو اضطراب واقع ہوجاتا ہے اور اسی کے متعلق سے آئمہ کرام نے ان پہ کلام کیا ہے لہزا ان سے انکی روایت ضعیف ہوگی، اسکے علاوہ ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کوئی شاذ کلام انہیں کوئی نقصان نہیں دیتا الحمد اللہ۔ اور انکی روایات صحیح ہونگی۔

 

تحریر: ابو الحسنین ڈاکٹر شہزاد احمد آرائیں